قتال کی حجیت تا قیام قیامت‘‘ احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں’’

((بعثت بین یدی الساعة بالسیف، حتیٰ یعبداللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ وجعل رزقی فی تحت ظل رمحی، وجعل الذّل والصغار علیٰ من خالف امری، ومن تشبہ بقوم فھو منھم ))
’’مجھے قیامت تک کے لئے’’تلوار ‘‘کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ،یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے ۔اورجس نے میرے (اس) امر کی مخالفت کی ،اُس کے لئے ذلت اور پستی رکھ دی گئی اور جس نے (میرے اس طریقے کو چھوڑکر)کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اُنہی میں (شمار)ہوگا۔‘‘
(احمد :مسندالمکثرین،طبرانی۔)


((لا تزال عصابة من امتی یقاتلون علیٰ امراللّٰہ قاھرین علیٰ عدوھم لا یضرھم من خالفھم حتیٰ تاتیھم الساعة وھم علیٰ ذلک))   
’’میری امت کاایک گروہ اللہ کے حکم کے مطابق قتال کرتا رہے گا ،یہ لوگ دشمنوں پر چھائے رہیں گے ،جس کسی نے ان کی مخالفت کی وہ انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا ،یہاں تک کہ قیامت آجائے اور اسی طریقے پر قائم رہیں گے۔‘‘
(صحیح مسلم،کتاب الامارة۔)


((من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین ‘ولا تزال عصابة من المسلمین یقاتلون علی الحق ظاھرین علی من ناواھم الی یوم القیامة))
’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیدیتا ہے اور قیامت تک مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق پر لڑتی رہے گی اور اپنے سے الجھنے والوں پر غالب رہے گی ۔‘‘
(صحیح مسلم۔)


’’ مسلسل میری امت میں سے ایک جماعت لڑتی رہے گی حق پر۔غالب رہے گی اپنے مخالفین پر یہاں تک کہ وہ آخر میں مسیح دجال (سے قتال کرے گی)‘‘
(ابوداؤد،با ب دوام الجھاد۔)


’’میری امت سے ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ حق کے لئے لڑتا اور غالب رہے گا ۔آخر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے اس (گروہ )کے امیر ان سے کہیں گے ’’آئیے ہماری امامت کیجئے‘‘تو وہ کہیں گے ’’نہیں اللہ نے اس امت کو یہ شرف بخشا ہے کہ تم ہی آپس میں ایک دوسرے کے امیر ہو‘‘۔
(مسلم واحمد ،بروایت عن جابر بن عبد اللّٰہ ؓ۔)


’’سلمہ بن نفیل سے روایت ہے ‘کہتے ہیں کہ(فتح مکہ کے بعد)میں رسول اکرم ﷺ کی مجلس بابرکت میں بیٹھاتھا کہ ایک آدمی کہنے لگا: اللہ کے رسول لوگوں نے گھوڑے باندھ لئے ہیں اور ہتھیار رکھ دیئے ہیں کہتے ہیں اب کوئی جہادنہیں،بس اب جنگ ختم ہوچکی ہے۔رسول اکرم ﷺنے چہرہ مبارک آگے کیا ‘فرمانے لگے :’’جھوٹ کہتے ہیں، ابھی تو جنگ جاری ہے ‘میری امت میں تو ایک امت ہمیشہ حق پر قتال کرتی رہے گی ‘ان کیلئے اللہ کچھ قوموں کے د لوں میں ٹیڑھ پیدا کردے گا(تاکہ وہ ان سے لڑیں)مگر انہی سے ان کو رزق بھی فراہم کرے گا حتی کہ قیامت آجائے گی اور حتی کہ اللہ کا وعدہ آجائے گا ‘اور قیامت تک کے لئے اللہ نے گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھ دی ہے(یعنی اب جہاد قیامت تک جاری رہے گا)‘‘۔
(سنن نسائی۔)


افسوس !آج مسلمان دنیا کے دھندوں میں مشغول ہوکر ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘کے اس مفہوم کوسرے سے بھو ل ہی گئے یا جہاد کے معانی ہی کو تبدیل کرکے اُس کو اپنے معانی پہنا دئے ،لہٰذا آج مسلمان ہر جگہ ظلم و ستم کا شکار ہیں ،قومیں ایک دوسرے کو اُن پر ٹوٹ پڑ نے کی دعوت دے رہی ہیں ۔رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا:
’’جب تم سودی کاروبار کرنے لگ جاؤگے اور بیلوں کی دم کو پکڑے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاؤ گے اور
((تَرَکْتُمُ الْجِھَادَ))جہاد کو چھوڑ دوں گے تو اللہ تم پر ذلت مسلط کردے گا اور اسے اس وقت تک دور نہیں کرے گا ،یہاں تک کہ تم اپنے ’’دین‘‘(یعنی جہاد فی سبیل اللہ)کی طرف لوٹ آؤ۔‘‘

’’قریب ہے کہ (کفر کی )قومیں تمہارے خلاف جنگ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دے کر بلائیں گی جس طرح بھوکے ایک دوسرے کو دستر خوان پر دعوت دے کر بلاتے ہیں‘‘۔اس پر ایک پوچھنے والے نے پوچھا کہ کیا اس وقت ایسا ہماری قلت ِ تعداد کی وجہ سے ہوگا ؟آپﷺنے فرمایا :’’(نہیں،)بلکہ اس وقت تو تم زیادہ تعداد میں ہوگے ،لیکن تم سیلابی پانی کے جھاگ کی طرح ہوگے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے ضرور ہی تمہاری ہیبت ختم کردیں گے اور تمہارے دلوں میں ’’وھن‘‘ ڈال دیں گے۔‘‘تو پوچھنے والے نے پوچھا :یارسول اللہ!یہ وھن کیا ہوگا؟ فرمایا:
((حُبُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَةُ الْمَوْتِ ))
’’ دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا ‘‘ ۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں :صحابہ نے پوچھا :یارسول اللہﷺ!یہ وھن کیا ہوگا؟آپ ﷺ نے فرمایا :
(( حُبُّکُمُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَتُکُمُ الْقِتَالَ))
’’تمہارا دنیا سے محبت کرنا ’’قتال‘‘ کو ناپسند کرنا ۔‘‘
(ابوداؤد باب کتاب الملاحم ، مسندِ احمد واسنادہ صحیح۔)


یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس فریضہ سے مختلف بہانوں اور تاویلات کرکے روکنے والے ’’آئمة المضلین‘‘سے مسلمانوں کو خبردار کردیا تھا:
’’جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا۔اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان کےعلماء یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے ۔لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ’’جہاد کا بہترین زمانہ‘‘ہوگا ۔صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ!کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں وہ جس پر اللہ کی لعنت،فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو!یہی لو گ جہنم کا ایندھن ہوں گے‘‘۔
(السنن الواردة فی الفتن ج:۳ص:۷۵۱،کنز العمال۔)


حضرت ابو رجاء الجزری حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ ’’اب کوئی جہاد نہیں ہے ‘‘۔تو جب ایسا دور آجائے تو تم جہاد کرنا کیونکہ وہ’’ افضل‘‘جہاد ہوگا‘‘۔
(کتاب السنن ج :۲ص:۱۷۶۔)

Leave a comment